“بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسے تو نہ تھی”

مجھے خود سے ایک شکوہ رہتا ہے کہ میں اپنے لکھےگئے الفاظ میں معنی ڈھونڈتا ھوں ، اپنے معنی کو الفاظ نہیں دیتا۔ میں ان الفاظ کو اگل بیٹھنے کے فورن بعد ہی ان کے مطلب کے بارے سوچنے لگتا ہوں۔ میرے سر میں کتنے خیالات اور قلب میں کتنے جذبات پس پردہ زباں چھپے ہیں اور اس نقاب کے پیچھے سے جھانکتے ہیں، الفاظ کی کھوج میں۔ مسلہ یہ ہے کہ ان احساسات کو جو کوئی لفظ بھی دکھ جائے یہ اسے دید سے دل میں اتار لیتے ہیں اور باقی سب دعوےداروں کو فارغ کر دیا جاتا ہے ۔ اس جوش خطابت سے نکلی جلد بازی اور لاپرواہی سے کئی احساسات اپنے کی بجاے دوسرے احساسات کا لباس اوڑہ بیٹھتے ہیں اور معاملہ ٹیڑھے سے ترچھا اور ترچھے سے الٹا ہوتا چلا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ میں خود اپنی تحریر سے آشنائی کا دعوہ کرنے سے گریز کرتا ہوں اور اگر کوئی میرے کچھ لکھے ہو ے کا مطلب مجھ سے دریافت کر لے تو بولنے سے کتراتا ہوں۔ “دیکھئے، آئینے میں میں خود کو دیکھ کے میں بھلا کیسے بتا سکتا ہوں کہ آپ کیسے دکھتے ہیں؟”  اور اس طرح کے کئی الٹے سیدھے جملے اپنی لاچاری کو جائز ثابت کرنے کے لیے کہ دیا کرتا ہوں۔

مگر اب میں نے صرف وہ لکھنے کی ٹھانی ہے جو لکھے بغیر رہا نہ جائے، اور جس کو لکھتے وقت اس بات کا یقین ہو کہ جو کچھ لکھا جا رہا ہے اس کامدّع کم از کم میرے ذہن میں واضح ہے ۔ لکھنے کی چاہ میں میں نے بے معنی جملوں کا اتنا شور و ولولہ مچا رکھا تھا کہ اس میں چند ایک بامقصد اور پر معنی جملے اور لفظ کراہتے رہتے تھے پر انہیں نہ  تو کوئی پہچانتا، اور نہ ہی  کوئی ان کی اصلیت تسلیم کرنے کو تیار ھوتا۔ ہم سب کو اس دواتوں اور قلموں سے بھری دنیا میں اپنی لکھائی کا نام بنانے کے لیے کئی کرتب کرنے پڑتے ہیں۔ کوئی اپنی تحریر میں گالیوں  کی بوچھاڑ کر رہا ہے تو کوئی بڑے لفظوں کی بھرمار ، کوئی ہم آواز الفاظ کادیوانہ شاعر آزادی کا متوالا ہوا تو کوئی دلکش تصاویر  پہ اپنی شاعری چھاپنے لگا، کوئی دو زبانوں کو جوڑنے کی کاوش میں لگ گیا تو کوئی نت نئے موزو سخن تلاشنے لگا ۔ میں بھی اس جستجو جدّت میں اکثر سچ کے ایک بڑے حصّے کو کھو دیتا ہوں۔ اپنے لکھے سے متاثر میں ویسے بھی کم ہی ہوتا ہوں مگر جب الفاظ اور تکنیق کی دھند میں معنی ہی اوجھل ہوجاے تو قاری اپنے سچ گھڈ کے میرے پہ مسلّط کریں گے ہی۔ اس سے مجھے خاص مسلہ نہیں، الفاظ تو ہیں ہی سیاہی کے  پتلے، جنہیں پڑھنے والوں کی عقل کی رسیاں انہیں کے دل کی دھن پہ نچا تی ہیں۔ لیکن مسلہ تب پیدا ہوتا ہے جب میرے الفاظ کی رسیاں مجھے ہی جکڈنےلگتی ہیں اور میں ان کے ساز پہ  رقص کرنے لگتا ہوں، نہ کے وہ میرے۔ جیسے زندگی معنی کو لمحوں میں سمیٹنےکا نام ہے، لکھنا معنی کو لفظوں میں قید کرنے کو کہتے ہیں۔ مگر جیسے  آگاہی کے عذاب کےبائث میرے لمحے بھی معنی کی قید میں رہتے ہیں، میں بھی لفظوں کا غلام ہوں۔

الفاظ خود ہی اتنا بولتے ہیں کہ مجھے بولنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔

Leave a comment

Filed under Poem, Poetry, Urdu, Writing

Leave a comment